Paper

  • Title : تبصرہ''جامعہ کشمیر اور اقبالیات"
    Author(s) : پروفیسر کبیر احمد جائسی
    KeyWords : عملی اقدام ،مستند تحریریں،مزِین،تحقیقی مقالے
    View Abstract
    پیش نظر تصنیف"جامعہ کشمیر اور اقبالیات"جس کے مصنف ڈاکٹر بدرالدین بھٹ ہے بقول کبیر احمد جائسی ۔ان کے اس کاوش کا بجا طور پر اقبال انسٹی ٹیوٹ کا انسائیکلو پیڈیا قرار دیا جاسکتا ہے۔انہوں نے اپنی اس تالیف کی ابتدا کشمیر کے تاریخی پس منظر کے مطالعے سے کی ہیں۔انہوں نے تا حد ممکن تمام دست یاب کتابوں کا مطالعہ کر کے ان کا نچوڑ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔تحریک حریت کشمیر میں اقبال کی شمولیتاور عملی اقدام پر بھی روشنی ڈالی ہے۔اس کتاب میں اقبال انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی تاریخ اور اس کے اب تک تین ڈائریکٹروں کے عہد نظامت میں ہونے والے کاموں کا بھر پور مواد موجود ہیں۔اس کے علاوہ اس انسٹی ٹیوٹ کے تدریسی عملے کے حیات اور کارناموں کی تفصیل بھی رقم کی گئی ہے۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالوں کا تفصیلی تعارف بھی پیش کیا گیا ہے

  • Title : شوقی اور اقبال''ایک مطالعہ تبصرہ''
    Author(s) : ڈاکٹرریاض توحیدی
    KeyWords : عبقری شخصیت،معنوی مماثلت،محققانہ،توضیح،قرآنی فکر وپیام،نظریہ حاکمیت،قومیت و وطنیت ،استعماریت
    View Abstract
    پیش نظر تصنیف" شوقی اور اقبال " کے مصنف معروف دانشور اور عربی ادب کے استاد جناب ڈاکٹر محمد سلطان شاہ اصلاحی کی ہے۔ اس میں دو نابغہ شاعروں امیرالشعراء احمد شوقی "مصر" شاعر مشرق علامہ اقبال کے اشعار و افکار کی معنوی مماثلت اور ثقافتی موزونیت کا محققانہ اور دانشورانہ مطالعہ ہے۔ باب اول "شوقی اور اقبال" مشاہیر کی نظر میں باب دوم "عالم اسلام استعماریت کی زد میں" ۔باب سوم" نوید صبح "باب چہارم"چند وہبی مماثلتیں"باب پنچم "شوقی اور اقبال کا قرآنی شعور"باب ششم" شوقی اور اقبال کی نعتیہ شاعری"باب ہفتم "شوقی اور اقبال کا تصور خلافت"باب ہشتم"شوقی اور اقبال کی اندلسیات"باب نہم "خلاصہ بحث و کتابیات"پر مشتمل ہیں۔اس کا مفصل تبصرہ موجود ہے

  • Title : اقبال کا تصور مرگ
    Author(s) : ڈاکٹر محمد یوسف وانی
    KeyWords : عارضی زندگی ۔خاکی مجسمے،فنا،نقش کہن،خون جگر
    View Abstract
    کلام اقبال میں ''موت،مرگ ،اجل ،فنا اور قضا کے الفاظ کثرت سے موجود ہے۔اور مجازی اور حقیقی معنی دونوں میں مستعمل ہیں۔ان کے نزدیک موت زندگی کے نقوش مٹانے کے بجائے اسے آنکھوں سے غائب کر دیتا ہے۔موت انسان کو فنا کے بجائے صرف جدا کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔موت خودی کے عارفوں کے لئے کسی بڑے تحفے سے کم نہیں۔اقبال کے نزدیک موت صرف ایک عارضی حادثہ ہے اس دہلیز سے گزر کر انسان زندگی کی دوسری منزل میں قدم رکھتا ہے ۔انہوں نے اسی نکتے کو ہمہ گیر اور وجد آفریں تشبیہوں سے کام لے کر سراہاہے کہ موت فنا نہیں ،بقا کا نام ہے۔انسان خودی کی نگاہ داشت سے موت کے باوجود زندہ و جاوید رہ سکتا ہے اور اسے موت سے آزادی حاصل ہو سکتی ہیں۔

  • Title : جید اقبال شناس ؛پروفیسر مرغوب بانہا لی ان کی اقبالیاتی تصانیف کے آئینے میں۔
    Author(s) : ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی
    KeyWords : وحدت فکر، ذوق یقین،عقیدت وارادت
    View Abstract
    پروفیسر مرغوب بانہالی صاحب ایک حساس شاعر ،ایک درد مند اور ایک اعلی ظرف انسان کے ساتھ ساتھ بلند پایہ ادیب اور اسلامی دانشور بھی تھے۔آپ تقریبا تین دہائیوں تک کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ کشمیری اور سنٹرل ایشن اسٹیڈیز میں کلیدی عہدوں پر فائز رہ کر علم ادب کے خدمات انجام دیتے رہے۔اقبال انسٹی ٹیوٹ سے ان کا گہرا تعلق تھا۔اس انسٹی ٹیوٹ میں آپ یہاں کے ایم فل ،پی ایچ ڈی اسکالرس کووقتا فوقتا اقبال کا فارسی کلام پڑھاتے رہے۔اقبالیات میں آپ کو ایک مقام حاصل ہے۔آپ نے اپنی تصانیف کے ذریعہ اقبال کی تفہیم و ترویج میں کافی اہم رول ادا کیا ۔اردو، فارسی، انگریزی اور کشمیری ادب میں ان کی درجنوں کتابیں ،جرائد اور مضامین شائع ہو کر علمی وادبی حلقوں میں داد تحسین ھاسل کر چکی ہیں۔اقبال پر ان کی مشہور تصانیف ''خزنیہ امین''آدم گری اقبال''کلام اقبال کے روحانی ،فکری اور فنی سر چشمے منظر عام پر آچکی ہیں۔

  • Title : اقبال کا مرد مومن اور عصر حاضر کے تقاضے
    Author(s) : انجینئر عامر سہیل وانی
    KeyWords : گم گشتہ آدم ،جسمانی قوت،اشرف المخلوقات،روحانی قوت،
    View Abstract
    علامہ اقبال کے نزدیک "مرد مومن "اس سلیم الفطرت ،خود شناسی ،پر عزم،انسان دوست اور پاک نفس شخص کا توضیحی نام ہے جس کو قران میں اشرف المخلوقات کہا گیا ہے اور جس کا اکرام روز اول ہی "سجدہ تعظیمی" سے کیا گیا۔اقبال کا مرد مومن جسمانی قوت کے بجائے ایمانی و روحانی قوت سے کائنات کو مسخر کرتا ہے۔یا یوں کہنا بجا ہوگا کہ مرد مومن جسمانی،روحانی اور روشن ذہنی صلاحیتوں سے متصف ہوتا ہے اور ضبط نفس احکام الہی کی پابندی کے مدارج طے کر کے بلا آخر "نہابت الہی " تک رسائی حاصل کرتا ہے۔۔وہ اپنے "مرد مومن'' کو وقت کی موجوں کے ساتھ غرق ہونے کے بجائے اسے حالات سے لڑ کر ان پر قادر آنے کی تربیت دیتا ہے۔لیکن ساتھ ساتھ ان کا مرد مومن بے جا استبداد کاپیکر نہیں کہ جس سے اتنی آزادی دی جائے کہ وہ دوسرے انسانوں کے لئے باعث مضر بنے۔ان کے نزدیک مرد مومن خود میں ایک کائنات بلکہ کائنات خود اس کی ذات میں ہے۔

  • Title : اقبال کا تصور فرد اور سماج
    Author(s) : سلمان عبدالصمد
    KeyWords : ارتفاع انسانیت ،معراج آدمیت،سماجی تشکیلات ،فردیت
    View Abstract
    کلام اقبال کی بنیادی خصوصیت ارتفاع انسانیت اور معراج آدمیت ہے ۔ان کا شعری نقطہ عروج احترام آدمیت سے مربوط ہے۔اسی نقطہ سے تصور فرد کی شعاع نکلتی ہے اور فردیت کی اسی روشنی میں ہی سماجی رویہ تشکیل پاتے ہوئے نظر آتےہیں۔ان کا فلسفہ خودی لفظی شعریات کی حد تک گرچہ تصور فرد کا احساس دلاتا ہے ۔تاہم اس کی جزئیات پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے ۔کہ خودی صرف فردیت سے ہی نشو نما نہیں پاتی ہیں۔خودی فرد فرید کی خودی نہیں ہیئیت اجتماعیہ کی خودی بن کر سامنے آتی ہیں۔

  • Title : اقبال کی ماخوذ نظمیں اور آزاد ترجمے انگریزی شاعروں سے ایک تجزیہ
    Author(s) : فردوس جبین
    KeyWords : ماخوذ،استفادہ،آزاد ترجمہ ،مرکزی خیال
    View Abstract
    علامہ اقبال بھی خود ایسے شاعر ہیں ۔جن کی اپنی نظمیں اور غزلیں دنیا کے کئی دوسرے زبانوں میں ترجمہ کی گئیں ہیں۔اور انہوں نے بھی بہت سارے انگریزی نظموں کا ترجمہ بھی کیا ہے۔اقبال،انگریزی کے نامور اور مشہور شعراء کے فن پاروں کا گہرائی اور غورو خوض سے مطالعہ کرتے تھے اور ان سے بے حد متاثر بھی ہوئے۔ان کی کئی نظمیں انگریزی نظموں سے ماخوذ ہیں مثال کے طور پر "ماں کا خواب"ولیم بارنس کی نظم The mothers dream سے ماخوز ہے "ایک پرندہ اور جگنو"اور ہمدردی"ولیم کوپر کی نظم سے ماخوذ ہیں ۔"پرندہ کی فریاد" ولیم کوپر کی نظم میں کافی مماثلت ہے دونوں نظموں کا مرکزی خیال ایک ہی ہے گرچہ اقبال نے اسے ماخوذ نہیں کہا۔"والدہ مرحومہ کی یاد میں'' بھی ولیم کوپر کی نظم سے کا فی حد تک میل کھاتی ہے ۔عشق اور موت ٹی نیسن کی نظم سے ماخوذ ہے۔"رخصت اے بزم جہاں" ایمرسن کی نظم سے ماخوذ ہے۔یہ ترجمیں دراصل ان کی موضوعی نظموں کا اولین نقش ہیں،

  • Title : قرآن حکیم کا مقام و مرتبہ۔ فکر اقبال کی روشنی میں
    Author(s) : فیاض احمد وانی
    KeyWords : اعتقادی امور،وابستگی و وارفتگی،قرآن خوانی،افکار و خیالات۔
    View Abstract
    علامہ اقبال کے نزدیک قرآن دین کی ایک مکمل کتاب ہے ۔دین اسلام کی بقاء کے لیے قرآن اور حدیث کو سب سے بڑا ذریعہ سمجھتے تھے۔اسی لیے وہ پوری طرح ان دونوں ذخیروں سے منسلک ہوگئے تھے۔ان کی نصیحت ہے کہ ایک ہی آئین اور دستور کی پابندی اختیار کی جائے تب جاکر مسلمانون کی تعلیم وتربیتکے میدان میں چار چاند لگ سکتے ہیں۔ان کے نزدیک قرآن مجید پوری کائنات میں شمع فروزاں ہے ۔ان کے کلام میں پیچ وتاب سوزوگداز ،فکرونظر اور وجدان سب کچھ نظر آتا ہے۔انہوں نے انسانیت کی رہنمائی اور پختہ تربیت کے لیے قرآن کریم کو ہی قرار دیا ہے۔مسلمانوں کے عروج ،رفعت شان، بلندی اور اقتدار قرآن کے ساتھ مکمل طورپر وابستہ ہونے سے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔

  • Title : سید نزیر نیازی بحیثیت مترجم خطبات اقبال:ایک مطالعہ
    Author(s) : افشانہ نذیر
    KeyWords : قدیم انداز فکر عقلی تعبیر تصور اجتہاد عقلی تعبیر حیات بعد الموت
    View Abstract
    علامہ اقبال جو ایک مفکر شاعر ہے۔بیسویں صدی میں ایک فلسفی شاعر اور تہذیب اسلام کے نباض کی حیثیت سے ابھرے۔اقبال کی نظر میں جہاں علم قدیم اپنی محدود افادیت کے باوجود عہد حاضر کے پیدا کردہ سوالات کا جواب دینے سے قاصر ہے اپنے قدیم انداز فکر و ذکر کی وجہ سے دور حاضر کے انسان کے لئے نا قابل فہم ہے۔اس صورت حال کو دیکھ کر اقبال نے اسلام کے پورے فکری نظام پر از سر نو غور و فکر کی طرف توجہ مرکوز کی۔جس کے نتیجے میں اقبال کی شاہکار تصنیف the reconstruction of religious thougt in islamمعرض وجود میں آئی یہ مختلف خطبات پر مشتمل کتاب ہے جس کا ترجمہ سید نذیر نیازی نے " تشکیل جدید الہیہات اسلامیہ"سے کیا اقبال کی خود کی بھی خواہش تھی کہ اس کا اردو ترجمہ کیا جائے بالاآخر یہ ذمہ داری سید نذیر نیازی نے قبال فرمائی ترجمے پر کام کرنے دوران اقبال نے بھی کئی ابواب پر نظر ثانی کی۔اسی طرح نیازی صاحب نے نہایت باریک بینی سے ہر خطبہ کا ترجمے کیا ۔اس ترجمہ کی اپنی اہمیت و افادیت ہے۔

  • Title : اقبال اور حافظ: فکری ہم آہنگی
    Author(s) : ڈاکٹر محمد حسین
    KeyWords : مماثلت متفرق فکریات اسلوب اور انداز بیان
    View Abstract
    علامہ اقبال کے اردو فارسی کلام پر حافظ کے اثرات نمایاں ہے ۔دونوں کا کلام فکرو ادب کے حوالے سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے ۔دونوں کے انداز بیان اور بلاغت اظہار کی مشترک خوبیوں کے علاوہ دونوں کی تحریروں میں مماثلت نظر آتی ہے۔قیام یورپ کے دوران اقبال نے خود اس چیز کا اعتراف کیا تھا کہ حافظ کی روح مجح میں حلول کر گئی ہے لیکن اس کے باوجود اقبال نے انہیں کئی کئی جگہوں پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔جو اقبال کے فکریات و نظر یات سے مماثلت نہیں رکھتا چاہے وہ تصور خودی ہو یا چاہیے وہ تصور عشق اور تصوف جیسے نظریات ہو۔

  • Title : علامہ اقبال اور ابوالکلام آزاد کا اشتراک فکرو عمل
    Author(s) : ڈاکٹر نزیر احمد کھنڈا
    KeyWords : طائرانہ نگائیں نگارشات طرز فکر مشترک علمبردار ہم نوا ہم نغمہ
    View Abstract
    اقبال اور آزاد اپنے عہد کے ایسے دو بڑے مفکر تھے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو اپنے فکر فن سے کافی متاثر کیا۔دونوں اصحاب کو اللہ تعالی نے غیر معمولی صلاحیتوں سے سرفراز کیا تھا۔دونوں کو کائنات اور زندگی اور ان سے وابستہ معاملات سے برائے راست سروکار رہا ہے۔اور ان کی تلخیوں سے تا دم مرگ نبرد آزما ہوتے رہے ہیں۔مذہبی امور ہو کہ سیاسی ،تہذیبی ہو یا ثقافتی ،معاشی ہو یا سماجی اور ادبی ہو یا علمی ان سب معاملات پر ان دونوں کی طائرانہ نگائیں مرکوز رہی ہیں۔اور ہر معاملے میں ان کا ایک سوچا سمجھا موقف رہا ہے۔جسے تدبر تفکر اور نہایت جامعیت کے ساتھ یہ دونوں اپنی اپنی نگارشات میں پیش کرتے رہیں ہیں۔

  • Title : قرآن حکیم فکر اقبال کا سرچشمہ
    Author(s) : ڈاکٹر رخسانہ رحیم
    KeyWords : سر چشمہ حیات متمنی محور فکر و نظر
    View Abstract
    اقبال کے پورے نظام فکر کا محور قرآن پاک ہے۔چنانچہ اردو وفارسی کلام اور خطبات میں جابجا قرآنی آیات کا سہارا لے کر وہ اپنے خیالات کی ترسیل و تشہیر کرتے ہیں ۔وہ قرآن کے حوالے سے انسان کی تمام روحانی ،سیاسی ،سماجی اور اقتصادی مسائل کا حل ڈھونڈ نکالنے کی متلاشی اور متمنی تھے۔ان کے نزدیک قرآن دنیا کی وہ واحد کتاب ہے جس نے دنیا کو ایک نئے انقلاب نئے قانون نئے عقائد اور انسانی زندگی کو ایک نئی روش سے متعارف کرایا۔

  • Title : اقبال اور مسلمانوں کا نظام تعلیم :اک بازدید
    Author(s) : ڈاکٹر نصرت جبین
    KeyWords : عصر حاضر انتشار الحاد استفادہ تربیت متنفر مغربی تعلیم مشرقی تعلیم
    View Abstract
    علامہ اقبال بیسویں صدی کی اس عبقری شخصیت کا نام ہے۔جس نے کم وبیش لاکھوں ذی شعور انسانوں کی فکری تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے۔انہوں نے گرچہ فن تعلیم پر کوئی تصنیف تو نہیں لکھی اور نہ ہی فن تعلیم کے ماہر تھے۔لیکن ان کی تحریروں سے اس حوالے سے جو بھی ہمیں نظریہ ملتا ہے اس کی اپنی اہمیت و افادیت ہے۔اقبال کے تصورخودی میں تعلیم ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہےکہ ان کے یہاں تعلیم انسان کی خودی کی شناخت کا نام ہے اور یہ تعلیم مذہب کے تحت ہو تو زیادہ کارگر ثابت ہوگی ،کیونکہ مذہبی تعلیم کے تحصیل کے بعد جس کودی کا جوہر پیدا ہوگا اس کا سفر خود شناسی سے شروع ہو کر خدا شناسی تک پہنچتا ہے۔

  • Title : تصوف :تعارف ومقصد
    Author(s) : ڈاکٹر الطاف حسین نقشبندی
    KeyWords : وصف کمال معرفت و توحید ظاہر وباطن تزکیہ نفس شریعت
    View Abstract
    ماہرین تصوف و مورخین نے اس موضوع پر تفصیلا گفتگو کی ہے اور اس کے مفاہیم و مطالب کو واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔لفظ تصوف کی اصل کے حوالے سے ہر عہد میں اس کی تشریح و توضیح کی گئی ہے اور اس حوالے سے مختلف رائے بحی پیش کی ہے۔جنید بغدادی کے مطابق تصوف دراصل دنیا اور اسباب دنیا سے دور رہنے کا نام ہے اسی طرح صوفیائے کرام نے مختلف مقامات پر اس کے مقاصد بیان کئے ہیں۔ان صوفیاء کرام میں ابو یزید بسطامی،اسماعیل بن جنید،ابو عثمان ،شیخ جنید بغدادی اور سید علی ہجویری کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہے۔

  • Title : اقبال اور گوئٹے
    Author(s) : ڈاکٹر پیر نصیر احمد
    KeyWords : اظہار عقیدت آمیزش علم باطن رموز واسرارمشرقی تخیلاتمشرقیت
    View Abstract
    گوئٹے جرمن مفکر تھا ۔مذہب ،علم الاخلاق،تصوف اور علم باطن کے اسرار و رموز سے واقف تھا۔ان کا معروف ڈرامہ فاسٹ ہے جس میں وہ حیات بعد الموت اور روحوں سے عالم آخرت میں ملاقات کا اظہار کرتا ہے۔دور جدید کے آرٹ اور ٹیکنولوجی پر سخت تنقید کرتا ہے۔مشرقی علم وادب کا انہیں گہرا مطالعہ تھا۔ابتدا شباب ہی سے ان کی ہمہ گیریت مشرقی تخیلات کی طرف مائل تھی ۔اس وجہ سے اقبال کو ان سے کافی دلی قربت رہی ہے۔انہوں نے اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا ہے کہ "پیام مشرق کی تصنیف کا محرک گوئٹے کا مغربی دیوان ہے ۔اقبال بیشتر جگہوں پر ان سے استفادہ کرتے نظر آتے ہیں۔

  • Title : رومی اور اقبال کی فکری مماثلتیں
    Author(s) : ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی
    KeyWords : عظیم المرتبت مرشد امتزاج مماثلت عارف اسرار دوست
    View Abstract
    علامہ اقبال کےفکرو فن پر مولانا جلال الدین رومی کے اثرات نمایاں ہے۔انہوں نے تقریبا۲۳ بار اردو میں ۲۷ بار فارسی میں مولانا رومی کا ذکر خیر کیا ہے ۔آپ مولانا رومی کو معنوی مرشد مانتے تھے۔مولانا رومی کی انفرادیت ویکتائی یہ ہے کہ ان کی فکرو فن میں برہان و وجدان کا ایک خوصورت امتزاج ہے ۔رومی اور اقبال دونوں قرآن سے استفادہ کرتے ہیں اور دونوں کے یہاں عقل کا رد نہیں ہے بلکہ ان کے نزدیک غورو فکر سے ایمان و ایقان میں استقامت آسکتی ہیں اور حقیقت حال کا احساس بھی ہو سکتا ہے ۔دونوں کے یہاں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اگر ایمان فکر سے عاری ہو تو تو بھر اس میں استقلال محال ہے اور کوئی بھی تیز و تند رو اسے اپنے ساتھ بہا لے سکتی ہیں۔غوروفکر ایمان کی قوت ہیں نہ کہ تشکیک کی وجہ۔دونوں اپنی تخلیقی نوعِت میں سوز دروں پر بے حد زور دیتے ہیں۔

  • Title : اکیسویں صدی میں اقبال کی معنویت :چند گذارشات
    Author(s) : ڈاکٹر مفتی مدثر فاروقی
    KeyWords : از سر نو روایت تشکیل نو جمود وژن تقلید افتادہ اوراق
    View Abstract
    اقبال وہ واحد مفکر ہیں جنہوں نے نہ صرف ان سب چیزوں کی نشاندہی کر دی تھی جو بیسویں صدی کے نصف اول میں ابھر کر ایک چلینج کی صورت اختیار کر چکی تھی۔بلکہ تقریبا ایک صدی کے بعد اض بھی کم و بیش وہی مسائل ہمارے سامنے موجود ہیں۔اقبال کا ایک پہلو وہ ہے جو ہر ذی شعور انسان کے لیے اہمیت رکھتا ہے ۔اور یہ مذہب و ملت ،زمان ومکان کی بندشوں سے ماورا ہے۔اقبال شاعری کو آدم گری کہہ کر اس کا مقصد متعین کرتے ہیں ۔کائنات اپنی بے پناہ وسعتوں کے ساتھ جن کو جدید سائنس نے ہمارے سامنے کھول دیا ہے ۔ہمیں کلام اقبال میں اس کی طرف بھی اشارہ ملتا ہے ۔اقبال کا دوسرا پہلو جو ملت اسلامیہ سے مختص ہےکہ وہ فکر اسلامی کی تشکیل نو کے پر زور حامی تھے۔

  • Title : اقبال انسٹی ٹیوٹ اور اس کا کتب خانہ
    Author(s) : عبداللہ خاور
    KeyWords : منتقل ارسال تحقیق و تدوین ذخیرہ
    View Abstract
    اقبال کے صد صالہ کے موقع پر علامہ اقبال کی یاد کو تازہ اور زندہ رکھنے کے لیے اور ان کی کارناموں کی مختلف جہتوں پر کام کرنے کے لیے ۱۹۷۷ء میں کشمیر یونیورسٹی میں اقبال چئیر قائم کی گئی۔ تاکہ اقبال شناسی کو فروغ عام حاصل ہو۔اس کی سر براہی کے لیے ملک کے مقتدر اردو ادیب ،شاعر ،نقاد اور اقبال شناس پروفیسر آل احمد سرور کی خدمات حاصل کی گئی۔۱۹۷۹ء میں اقبال چئیر کو باقاعدہ ایک انسٹی ٹیوٹ میں تبدیل کیا گیا اور سرور صاحب اس کے لیے پہلے ناظم مقرر کئے گئے۔یہاں مختلف اساتذہ کی نگرانی میں مختلف تحقیقی مقالے لکھوائے گئے ۔سیمیناروں کے ساتھ ساتھ توسیعی خطبات کا اہتمام بھی ہوتا ہے اور ان مقالات کو تحریریں شکلیں دی جاتی ہیں ۔آل احمد سرور اور باقی اساتذہ نے بھی باہر کے ملکوں سے کتابیں منگوائی جس وجہ سے یہاں ایک ذخیرہ جمع ہوگیا۔

  • Title : عہد جدید میں دانشور اقبال کی معنویت
    Author(s) : ڈاکٹر مشتاق احمد
    KeyWords : جدید ایجادات جدید دریافتوں نئے انکشافات انقلاب گلوبیلیزیشن
    View Abstract
    گلوبیلیزیشن کی وجہ سے زندگی کی تمام شعبوں میں انقلاب برپا ہوگیا۔ادب میں بھی کچھ اس طرح کی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھی ۔اقبال کے افکار ونظریات بھی اس سے متاثر ہوئے ۔ان کی شاعری اور نثری تخلیقات میں وہ علمی اور فکری سرمایہ موجود ہے جس کی مدد سے ہم اکیسویں صدی یعنی عہد جدید میں ذہنی سکون حاصل کر سکتے ہیں ۔اور ان طاقتوں کو اپنی گرفت میں لا سکتے ہیں جن کے زریعہ اپنی فکری و نظری پسماندگی اور بے کسی کا ازالہ کر سکیں۔

  • Title : اقبال کا کارنامہ
    Author(s) : پروفیسر بشیر احمد نحوی
    KeyWords : اتحاد فکر ،اقدار عالیہ ،ملت اسلامیہ ،روحانی ترقی تلمیحات و استعارات
    View Abstract
    شعراء چاہیے ان کا تعلق مشرق سے ہو یا مغرب سے ان میں سے بہتوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ زندگی کو بامعنی بنانے کا فریضہ انجام دیا ہے اور کاروان انسانی کے لئے رہنمائی کا سامان میسر کیا ۔اس فہرست میں جہاں تک اردو شعراء کا تعلق ہے تو اس میں اقبال واحد شاعر ہیں جس کی عظیم شاعری میں زندگی کی رنگینی،اخلاق کی رعنائی ،فن کی گہرائی اور اقدار عالیہ کی کارفرمائی نظر آتی ہے ۔ اقبال کی شاعری میں گل وبلبل ،خال وخط پرویز و کوہ کن اور لیلی مجنوں کی تلمیحات اور استعارات ہوا ہوس کی ترجمانی کے بجائے تقدیس اظہار کے لئے استعمال کیے گئے ہیں۔اسی طرھ انہوں نے تصوارت پیش کیے وہ بلکل منفر دکھائی دیتے ہیں ۔

  • Title : اقبال اور مقام محمدی علی صاحبہ الصلوۃ
    Author(s) : پروفیسر غلام رسول ملک
    KeyWords : حب رسول، جمال روحانیت،بصیرت افروز
    View Abstract
    علامہ اقبال نے اپنی فارسی شاعرمیں مقام محمدی کو اپنی گرفت ادراک و تخیل سے انتہائی دلنشین اور بصیرت افروز پیرایہ اظہار بخشا ہے ۔انہوں نے مقام محمدی کی جامعیت اور ان کے انقلابی کارنامے کے مختلف ابعاد کا احاطہ کیا ہے اور پھر دیوانہ وار اپنی عقیدت مند یاں اس پر نچھاور کی ہے ۔حیات دنیا کے ان تمام مسائل کو سلجھانے کے اس انقلابی اور تاریخ ساز عمل کو اقبال نبی اکرم کا جامع ترین معجزہ سمجھتے ہیں۔محمداکرم کائنات تخلیق کی ایک ابدی حقیقت کا نام اور یہ حقیقت کائنات کے ذرے ذرے پر چھائی ہوئی ہیں۔