Paper

  • Title : آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
    Author(s) : ڈاکٹر فیاض الدین طیب
    KeyWords : ماہر، گراں قدر،فائز، علمی اور تحقیقی،شعبہ جات، اعزاز، فرائض، خوش اسلوبی
    View Abstract
    پروفیسر مرغوب صاحب ریاست جموں وکشمیر کے مُشہور معروف ادیب شاعر، ناول نگار،ترجمہ نگار، اورنقاد گذرے ہیں۔ اردو، کشمیری، فارسی زبانوں کے ماہر ہو نے کے ساتھ ساتھ ماہر اقبال بھی تھے۔ اس کے علاوہ انہیں عربی زبان وادب سے بھی کافی دلچسپی تھی پروفیسر مرحوم نے اپنی ساری زندگی علمی اور تحقیقی سرگرمیوں میں گزاری انہوں نے مختلف نقوش ادب کے لیے چھوڑے۔جن سے استفادہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے تعلیمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ جبکہ انہوں نے کشمیریونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں مختلف عہدوں پر فائز ہو کر اپنے فرائض منصبی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دئے ہیں جن میں شعبہ کشمیری، شعبہ وسطی ایشیائی مطالعات اور اقبال انسٹی ٹیوٹ جیسے اہم ادارے ہیں۔پروفیسر مرحوم نے اپنی زندگی ادب اور تحقیقی کام کے لئے وقف کی۔ انہوں نے قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی کئی اعزاز حاصل کئے دیکھاجائے تو وہ بذاتِ خود ایک ادبی ادارہ کی حیثیت رکھتے تھے۔کشمیری زبان کے فروغ میں ان کا بہت بڑا حصہ رہا اور انہوں نے کشمیر لسانیات پر ایک نظریہ بھی پیش کیا۔

  • Title : علامہ اقبال بحیثیت شاعر مشرق
    Author(s) : ڈاکٹر محمد امین میر
    KeyWords : :۔ قدیم وجدید، خود اعتمادی، تخلیقی صلاحیتوں،جدوجہد، مادی ہستی،جلال، جمال،ترجیحات
    View Abstract
    علامہ اقبال نے مشرق و مغرب کے قدیم و جدید فلسفیانہ تصورات پر بھی گہری نظرڈالی۔ مغرب جو وقت خود اعتمادی، تخلیقی صلاحیتوں، حوصلہ وعزم اور فکری نظاموں کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مادہ یا فطرت کی تسخیر کی ساری جدوجہد انسان کی مادی ہستی کی بہبودی اور انسان کی مادیاتی جدوجہد کا نصب العین قرار پایا جس وجہ سے خدا کے تصورحیات ان کے تصورحیات کے بالمقابل منع کیا گیا۔مغرب میں مادہ کو زیادہ اہمیت دینے کے باعث جلال کا پہلو مرکزی اہمیت اختیار توکرگیا۔ لیکن جمال کی کمی رہ گئی۔ادھر مشرق میں پائی جانی والی بے، ربطی افکار،مجہولیت اور بے عملی بھی اسی طرح نقصان دہ ثابت ہو رہی تھی۔ جس طرح مغرب کی پوری طرح مادیت میں کھو کر مذہب اور روحانیت سے بالکل محروم لادینی۔ افکار علامہ اقبال نے اپنے زمانے کے ہی نہیں بلکہ ماقبل کے بھی فکرییا فلسفیانہ تصورات پر گہری نظر ڈالی اور جدید فلسفہ کی سطح پر جو مسائل درپیش تھے۔انہیں قدیم مشرقی فلسفیانہ بنیادوں پر رکھ کر ایک جدید فلسفیانہ نقطہئ نظر میں پیش کرنے کی کوشش کی اور ان کی روشنی میں اپنی ترجیحات کو متعین کر کے ایک مربوط فکری نظام کی تشکیل کی۔

  • Title : فکر اقبال کا مُطمحِ نظر۔النسانی اصلاح
    Author(s) : حارث حمزہ لون
    KeyWords : مفکر، ترتیب وتسلسل پُر آشوب،آفادیت، خلاقی وفنکاری، استدلال، نشیب وفراز
    View Abstract
    اقبال اردو کا پہلا شاعر ہے جو مفکر بھی ہے اور صاحب پیغام بھی ……اور اردو شاعر ی میں اقبال پہلی ہستی ہیں جن کو صحیح معنوں میں مفکر کہا جاسکتا ہے۔ کیو نکہ ان کی شاعری کی بنیاد ایک خاص نظام فکر یعنی Ideologyپر ہے۔ ان خیالات میں ترتیب و تسلسل اور استدلال و نتیجہ نظر آتا ہے۔ موجودہ ہر آشوب عہد میں پیغام اقبال کی افادیت بڑھتی جارہی ہے۔کیو نکہ ہمارا معاشرہ قدروں سے خالی ہو تا جارہا ہے۔ انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ احترام آدمیت کا قانوں یا مال ہوتا جارہا ہے۔ ہر طرف پھیلے ہو ئے سودوزیاں کے ماحول میں خلاقی وفنکاری متاثر ہو رہی ہے۔ اقبال اس تاریکی اور تیرگی کی صورتحال میں انسان دوستی اور محبت انسانی کا فانوس روشن کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ وہ زمانے کے نشیب وفراز سے گذرکر عصبیت کی تنگ و تاریک حصار سے نکل کر ایک فلاحی سماج کی تشکیل پر ختم ہوتا ہے ایسا مثالی معاشرہ جو اس دنیاوی زندگی کا ماحصل ہے۔

  • Title : شکوہ اقبال پر مسدس حالیؔ کے اثرات ایک بین المتونی تجزیہ
    Author(s) : ڈاکٹر الطاف انجم
    KeyWords : پژمردہ۔ مدوجزر،فنی،لسانی ہنرمندی، کلیجہ، اخلاقی۔سیاق وسباق
    View Abstract
    حالی ؔ اور اقبالؔ دونوں نے یکساں طور پر اپنے اپنے سیاسی اور تاریخی سیاق و سباق میں اُمّتِ مسلمہ کی پژ مردہ تصویر فنی اور لسانی ہنر مندی کے ساتھ شاعری میں پیش کی ہے حالیؔ نے مسدس میں مدوجزر اسلام دکھایا تو اقبال ؔنے (شکوہ اور جواب شکوہ میں مدوجزر اسلام دکھایا۔ ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ دونوں نے اسلام کی شاندار تاریخ اور موجودہ صورت حال کو تخلیقی سطح پر انگیز کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حالیؔ کے یہاں ملی دردوکرب اور احساس زیاں شدت کے ساتھ نمایاں ہوا ہے۔ مسدس میں حالیؔ نے اپنی قوم کی اخلاقی اور سیاسی پستی کے اظہار میں اپنا کلیجہ نکال کر رکھ دیا ہے اور اس احساس کو حالی نے جس سلیقہ مندی کے ساتھ ظاہر کیا۔ اُس سلسلے میں کم ہی شعراء حالیؔ کی ہم سری کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ حالی کے بالمقابل اقبال نے نہ صرف یہ کہ اہل ایمان حضرات کے کارناموں کو ”شکوہ“ میں موضوع بنایا بلکہ اُسے شعری و مسائل کی کارفرمائی سے خوب سے خوب تر بنانے کی جستجو بھی کی ہے

  • Title : علامہ اقبال کا نظریہئ اخلاق
    Author(s) : ڈاکٹر شاہ نوازشاہ
    KeyWords : شخصیت، بصیرت،معاشرہ، لادینیت، نفس پرستی، حرص وطمع،عدم مسادات
    View Abstract
    علامہ اقبال نے ”اخلاق“ جیسی عظیم دولت کو اصلاح معاشرہ کے لیے استعمال کیا۔ ان کی شخصیت کو خالق حقیقی نے بصیرت جیسی عظیم نعمت سے نوازا تھا۔ اس لئے وہ معاشرے کی ہر خرابی سے نہ صرف بخوبی واقف تھے۔ بلکہ ان کے تدارک سے بھی بخوبی واقف تھے۔ لادینیت، نفس پرستی، مادیت پرستی، خودغرضی، حرص وطمع اور عدم مساوات جیسی مہلک بیماریوں کے ساتھ ساتھ دیگر روحانی امراض فلسفہ سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔اس لیے وہ کافی فکر مند تھے کہ کہیںیہ امراض میری اس قوم کو تباہ وبرباد نہ کرے خصوصاً وہ قوم کے نوجوان سے متعلق بے انتہا فکر مند تھے۔ اسی لئے انہوں نے اپنا نظریہئ اخلاق کو دین پر استوار کیا اور آفاقی اقدار کی ترویج کے لیے کوشاں رہے۔

  • Title : سلامی تہذیب کا نظام اخلاق اور فکر یات اقبال
    Author(s) : ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی
    KeyWords : نقیب،نچوڑ، اخلاق عالیہ، اسلامی تہذیب، احساّس مرّوت، اغراض ومقاصد، کچل بچشم، شعار، انسانیت، پاکیزگی
    View Abstract
    علامہ اقبال فکر اسلامی کی نقیب اعلیٰ رہے ہیں لہٰذا آپ کے بیشتر اردو اور فارسی کلام کے علاوہ خطبات اور مکاتیب کا نچوڑ اخلاق سازی ہی قرار دی جاسکتی ہے۔ آپ کے نزدیک اسلامی تہذیب و تمدن کی اساس اخلاق عالیہ پر منحصر ہے اور یورپی تہذیب و تمدن اس دولت سے یکسر محروم ہے اسی لئے اس تہذیب میں اعلیٰ انسانی اقدار (Values)ناپیدہیں اس کی روح مردہ ہو چکی ہے مادیت نے اس کے احساس مروّت کو کچل کر رکھ دیا ہے اور اب وہ اغراض اور مفادات کے بندے بن کر دہ گئے۔ دراصل علامہ اقبال نے قیامیورپ کے زمانے میں مغربی تہذیب کی بنیادی کمزوریوں اور اس کی لادینی فکر اور اخلاقی قباحتوں کا بچشم خود مشاہدہ کیا تھا۔ اس لئے ان کے خیال میں مغربی تہذیب کا شعار انسانیت کی تباہی اور اس کا پیشہ تجارت ہے۔ ان کے خیال کے مطابق مغربی تہذیب کے سبب دنیا میں امن وامان خلوص اور پاکیزگی ناممکن ہے۔

  • Title : اقبال اور فلسفہ خودی
    Author(s) : ڈاکٹر محمد یعقوب
    KeyWords : خودی، جہات، تشکیل و تہذیب، نظام فکر، معرفت، تزکیہ، قدروقیمت، کائنات،حیثیت
    View Abstract
    اقبال شعر وادب میں ان قدروں کو اپنا نے کے خواہش مند تھے۔ جو زندگی میں محمدومعاون ہیں۔ جن سے دلوں میں تازگی ہمت میں بلندی اور اراروں میں پختگی پید اہو سکے ان کے نزدیک اعلیٰ ادب کے لئے روشن فکر کے ساتھ ساتھ صالح فکر بھی ضروری ہے انہوں نے ایک پائیدار اور مثبت نظام فکر مرتب کر کے انسان کو اپنی اصل حقیقت سے آشنا کیا۔ اور اس نظام فکر کا نام خودی ہے ان کے نظام فکر میں خودی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اپنے نفس کی معرفت، اس کا تزکیہ، اس کی ترقی و تعمیر، جو ہرذاتی کی پرورش و کردار کی تشکیل و تہذیب و غیرہ ہر فرد پر لازم ہے۔ جب تک فرد اپنی اہمیت اور قدر و قیمت سے واقف نہ ہو جائے۔ کائنات میں اس کی حیثیت کچھ بھی نہیں۔

  • Title : مولانا عبدالسلام ندوی، بحیثیت اقبال شناس
    Author(s) : ڈاکٹر رُخسانہ رحیم
    KeyWords : مایہ ناز، قادرالکلام۔مذہبی رہبر، فلسفیانہ، نقاد قابل تحسین
    View Abstract
    مولانا عبداسلام ندوی جو ایک ادیب اور انشاء پرداز شخصیت کے حامل تھے۔ دبستان شبلیؔ کے گوہرشب چراغوں میں عبدالسلام ندوی کا نام قابل ذکر ہے۔ جو مایہ ناز شعرالہذا اور اقبال کا مل کے علاوہ بہت سے کتابوں کے مصنف ہیں۔ اور نقاد کی صورت میں اُبھری ہو ئی شخصیت ہے۔ ہندوستان میں اردو کی ترقی و ترویج میں عبدالسلام ندویؔ کی خدمات بھی قابل تحسین ہے۔ علامہ اقبال کو فلسفی، صوفی، متجد، ماہر تعلیم قومی ومذہبی رہبر کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے۔ اور ان کی شاعرانہ حیثیت کو ایک طرح سے پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ مولانا عبدالسلام ندوی نے اقبال کی شاعرانہ حیثیت کو مقدم رکھا ہے خود ان کا بیان ہے کہ ”میرے نزدیک ان کا کلام خشک فلسفیانہ مسائل کا مجموعہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک قادر الکلام شاعر ہیں۔ اس لئے میں نے فلسفیانہ، صوفیانہ، اور سیاسی مسائل سے پہلے ان کی ذات کوصرف ایک شاعر کی حیثیت سے پیش نظر رکھا ہے۔

  • Title : اقبال کا ”ارمغان حجاز (فارسی) رسول عربیﷺ کی سرزمین کا تصوراتی سفر نامہ
    Author(s) : پروفیسر بشیر احمد نحوی
    KeyWords : لغات :۔ تصورحیات۔ فضاوں، منبع کشف، محورالہام، استعداد، برگذیدہ، برگذیدہ، شائبہ
    View Abstract
    اقبال کا ایک اہم تصورحیات محبت رسولﷺ ہے اور وہ اسے مقصد کائنات سمجھتے ہیں۔ اپنی پوری عمرسرزمین حجاز کی فضاؤں میں اپنی فکر کے پرندے کو اڑائے رہے اور اسی آشانہ رحمت کے ساتھ وابستہ رہے جو آسمان کے نیچے سب سے بڑی ادب گاہ ہے۔ اور عرش ا علیٰ سے نازک ترہے، ارمغان حجاز اقبال کی محبتوں، عقیدتوں اور قلب ونظر کی دھڑکنوں کا وہ مجموعہ ہے۔ جس میں ایک عاشق رسولﷺ اپنے محبوب کی حیات مبارکہ اور ذہن برگریدہ کی ایسی تصویر پیش کرتا ہے۔جس میں کھبی گمی کا شائبدنہیںیہ وہ نگہ بلند ہے جس میں خیرہ ہو نے کا کو ئی اندیشہ نہیںیہ وہ منبع کشف اور محورالہام ووحی ہے۔ جس کی فکری استعداد عروج وارتقاوکی بلندیوں تک پہنچی ہو ئی ہے۔