View Abstractعلامہ اقبال نے مشرق و مغرب کے قدیم و جدید فلسفیانہ تصورات پر بھی گہری نظرڈالی۔ مغرب جو وقت خود اعتمادی، تخلیقی صلاحیتوں، حوصلہ وعزم اور فکری نظاموں کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مادہ یا فطرت کی تسخیر کی ساری جدوجہد انسان کی مادی ہستی کی بہبودی اور انسان کی مادیاتی جدوجہد کا نصب العین قرار پایا جس وجہ سے خدا کے تصورحیات ان کے تصورحیات کے بالمقابل منع کیا گیا۔مغرب میں مادہ کو زیادہ اہمیت دینے کے باعث جلال کا پہلو مرکزی اہمیت اختیار توکرگیا۔ لیکن جمال کی کمی رہ گئی۔ادھر مشرق میں پائی جانی والی بے، ربطی افکار،مجہولیت اور بے عملی بھی اسی طرح نقصان دہ ثابت ہو رہی تھی۔ جس طرح مغرب کی پوری طرح مادیت میں کھو کر مذہب اور روحانیت سے بالکل محروم لادینی۔ افکار علامہ اقبال نے اپنے زمانے کے ہی نہیں بلکہ ماقبل کے بھی فکرییا فلسفیانہ تصورات پر گہری نظر ڈالی اور جدید فلسفہ کی سطح پر جو مسائل درپیش تھے۔انہیں قدیم مشرقی فلسفیانہ بنیادوں پر رکھ کر ایک جدید فلسفیانہ نقطہئ نظر میں پیش کرنے کی کوشش کی اور ان کی روشنی میں اپنی ترجیحات کو متعین کر کے ایک مربوط فکری نظام کی تشکیل کی۔