Paper

  • Title : نطشے اور اقبال کے فکری روابط
    Author(s) : ڈاکٹر وسیم اقبال نحوی
    KeyWords : اثرات، افراط، منصب، گفتار، قانون ساز۔ شریعت وطریقت
    View Abstract
    اقبال کے بعض نقادوں نے فکر اقبال پر نطشے کے اثرات دکھانے میں بالعموم یا تو افراط سے کام لیا ہے یا توسط سے عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے ۔کہ اقبال کے یہاں انسانِ کامل کا تصور نطشے کے (superman) یعنی فوق البشر سے ماخوذ ہے۔اس کے علاوہ اسرارِ خودی میں فلسفہ سخت کوشی کی تعلیم کے بعض عناصر بھی جرمن فلسفی نطشے سے متعا ر لئے گئے ہیں۔ اقبال کا مرد مومن میں ایک نئی شان ہے اس کی گفتار میں،کردار میں ،اللہ کی بُرہان نمایاں ہے۔اقبال کا انسان مردمومن بن جاتا ہے تو وہ اس حدیث کا مصداق بن جاتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ پھر اس مومن کا ہاتھ اللہ کا ہاتھ بن جاتا ہے اور اس کی آنکھ اللہ کی آنکھ بن جاتی ہے ۔مردِمومن کی روحِ توحید،رسالت ،معرفت اور شریعت وطریقت کے علم وادراک سے سرشار ہوتی ہے۔وہ اس دنیا میں خدا کا حقیقی نائب ہے وہ اپنے آپ کو خدا کے آگے جواب دہ جانتا ہے اور اپنے آپ کو قانون سازو قانون مجسم نہیں سمجھتا ۔ اقبال کا مردِمومن نیابت الٰہی کے منصب پر فائض تو ہوتا ہے لیکن الٰہیت میں ضم نہیں ہوتا بلکہ اپنی انفرادیت قائم رکھتا ہے۔

  • Title : دوبتیی اقبال۔ایک جائذہ
    Author(s) : خورشید احمد
    KeyWords : اساس۔تکمیل،مصروف،عقیدت،دلبستگی۔تعمیر ۔ ترک دنیا
    View Abstract
    علامہ اقبال ایک ایسے شاعر تھے جن کے فکروفن کا سحر آفرین اظہار اگر چہ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں ہوا ہے لیکن فکر اقبال کی اصل آیات ان کی فارسی شاعری میں ہے دراصل اقبال جب یورپ میں اپنی تعلیم کی تکمیل میں مصروف تھے ۔ان شعرا میں بابا طاہر عریاؔں ،خاؔیم،حاؔفظ ،سعؔدی،اور مولانا روؔمی شامل تھے۔خیاؔم اور حاؔفظ کی شاعری اقبال کے لئے نا قابل قبول ثابت ہوئی۔جو کہ قارئین کو ترک دُنیا فنائے ذات اور انسانی کوششوں کی بے حاصلی کا درس دیتی ہے۔ مولانا رؔومی کو اقباؔل نے اپنا روحانی پیشوا بنا لیا ۔روؔمی کے ساتھ اقبؔال کو والہانہ عقیدت اور وابستگی ہے وہ روؔمی کے افکار سے شدت سے متاثر ہیں۔ اور ان کے پیغام میں قوموں کی تعمیر کا سامان دیکھتے ہیں ۔آج کے روحانی افلاس کا مداوا بھی انہیں رومی ہی کی تعلیمات میں نظر آتا ہے۔

  • Title : مولانا ابوالکالام آزاد اور علامہ اقبال کے افکار میں مماثلت
    Author(s) : شیرا احمد بٹ
    KeyWords : بحربیکراں- یک جہتی- علم وآگہی-فکرونظر۔ ہم آہنگی۔ عظیم ہستیاں
    View Abstract
    اقبال اور ابوالکلام آزاد کے تعلقات کےآغاز کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ البتہ دونوں مشاہیرغالباً گیا ؁ ۱۹۰۴ءمیں انجمن حمایت اسلام لاہور کے سالانہ جلسے میں شریک ہوئے تھے۔ مولانا آزاد اس جلسے میں ’’لسان الصدق‘‘ کے ایڈیٹر کی حیثیت سے مدعو کئے گئے تھے۔دونوں زاربا ب فکرونظر علم وآگہی کا ایک ایسا بحربیکراں تھیں۔ جنہوں نے ہندوپاک کی علمی ادبی مذہب ،فکری سماجی اور سیاسی زندگی کو گہرے طور پر متاثر کیا۔دونوں انسان دوست تھے اور رنگ ونسل اور مذہب کے تعصبوں سے پاک ہمیشہ قومی یک جہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے خواب دیکھتے رہتے تھے۔ اقبال کے کلام میں قدیم ہندوستان کی عظیم ہستیاں شری رام چندر جی سکھ مذہب کے بانی گورونانک مو ار سنسکرت شاعر اور ڈرامہ نویس بھرتری ہری وغیرہ کو ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔

  • Title : مرزا مبکی ماان
    Author(s) : فکری ذہن کا انتقال ((Brain Drainتعلیم وتربیت میں اردو زبان کے خیالات
    KeyWords : ترقی یافتہ،پسماندگان ،سماجیات ،معیاری، روز روشن، منفی اثرات،
    View Abstract
    اردو ہندوستان کی چند ترقی یافتہ زبانوں میں شمار ہوا کرتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جو تاریخی حیثیت حاصل کئے ہوئے تھا۔ جبکہ ہندی ترقی یافتہ زبان کا مقام حاصل کرنے سے کوسوں دور تھی ۔اردو زبان کے ساتھ یہ سانحہ پیش آیا کہ تقسیم ہندوستان کے بعد ہی یہ زبان سیاسی کشمکش کا شکار ہوئی ۔ جہاں پاکستان نے اس کو سرکاری زبان کے طور پر اختیار کیا ۔وہی اس کی منفی اثرات ہندوستان میں اُبھر کر آئی۔حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ متحدہ ہندوستان میں اعلٰی تعلیم کا کامیاب ترین تجربہ صرف اردو زبان میں ہی ہوا ۔جس کے نقوش آج بھی پسماندگان جامعہ عثمانیہ حیدر آباد کی شکل میں موجود ہے۔ برصغیر میں بڑے بڑے فلسفی دانشور ماہرین تعلیم اور ماہرین سماجاہت پیدا ہوئے ہیں جن کی اہلیت کو نہ صرف ہندوستان میں تسلیم کیا گیا بلکہ وہ پورے عالم میں مقبول ہوئے ۔ اقبال کی وابستگی اردو کے ساتھ صرف شاعری تک ہی نہیں بلکہ اردو کے معیاری اداروں میں بحیثیت رکن ہونا ان کی شخصیت کو مزید شرف بخشتا ہے۔اداروں میں جاکر خطبات کا دینا بالخصوص جوانوں کو عنوان بنا کر سماج و تہذیب کے اعتبار سے اصلاحی فکر کے ساتھ ان میں ولولہ اور جوش پیدا کرنا ان کا معمول رہا ہے۔

  • Title : جدیدیت ومابعد جدیدیت کا چیلینج اور اسلام
    Author(s) : مرتب ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر
    KeyWords : نقطہ نظر، دریافت،سر چشمہ، روایت پسندی ،داعی،نصب العین، جمہوریت
    View Abstract
    جدیدیت کی نظریاتی بنیادیں فرانس بیکن (France Becon) رینے ڈیکارٹ (Rene Desartes) تھا مس ہوبس (Thomas Hobes) وغیرہ کے افکار میں پائی جاتی ہیں جن کا لفظ یہ تھا کہ دنیا اور کائنات عقل تجربے اور مشاہدے کے ذریعے قابل دریافت ہے اور اس کے تمام حقائق تک سا ئنسی طریقوں سے ہی رسائی ممکن ہے ۔ اس لئے حقائق کی دریافت کے لئے کسی اور سرچشمہ کی ضرورت نہیں ۔بیسویں صدی کے آتے آتے یورپ اور شمالی امریکہ کے اکثر ممالک ان افکار کے پُر جوش مبلغ اور داعی بن گئے ۔ جدیدیت کو روشن خیالEnlightment Renianssance کے نام بھی دیے اور بڑی طاقتوں کی پشت پناہی سے روشن خیال کا منصوبہ بن گیا۔ چناچہ بیسویں صدی کے نصف آخر میں مغربی ممالک کا واحدنصب العین شہری دنیا (نوآبادیات) میں روایت پسند ی سے مقابلہ کرنا اور جدیدیت کو فروغ دینا قرار پایا۔آزادی جمہوریت ۔مساوات مردوزن سائنسی طرز فکر۔سیکولرزم وغیرہ جیسی قدروں کو دنیا بھر میں تمام کرنے کی کوشش کی گئی۔

  • Title : اقبال اور وڑزورتھ
    Author(s) : ڈاکٹر محمد حسین بٹ
    KeyWords : حصول مقصد،لفظی بازی گری،اکتفا،انکشاف، استعارات ،تشبیہات
    View Abstract
    علامہ اقبال کی طرح وڑزورتھ نے بھی حصول مقصد کو پیش کیا۔انہوں نے شاعری کو خیالی دنیا سے باہر نکالنے کی بات کہی اور لفظی بازی گری کو بھی معمولی ٹھرایا۔ اور جذبات واحساسات کو انسانی اور مسائل حیات کے ساتھ وابستہ کیا۔وڑزورتھ مقصدی شاعری کا پرچار کرتے تھےوہیں اقبال بھی ان کے اس کفر سے متفق ہے اور انہیں ایسے کلام سے سخت نفرت ہے جو کہ بے مقصد معلوم ہوتا ہے ۔اقبال اور وڑزورتھ کے متفرق خیالات میں یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ اقبال جہاں باطنی قوت کے حوالے سے جلال کا بھی ایقان رکھتے ہیں۔ وہاں وڑزورتھ صرف جمال یا ظاہری حسن پر ہی اکتفا کرتے ہیں ۔ان دو مفکروں نے اپنے اپنے کلام میں ’’انا‘‘ کا انکشاف کیا ، دونوں نے فطرت کو مقصدیت کے حوالے سے کلام میں’’انا‘‘ کا انکشاف کیا، دونوں نے فطرت کو مقصدیت کے حوالے سے ہی ظاہر کیا ۔فطرتی علامت اور استعارات وتشبیہات کا استعمال کرکے انسانی فلاح و بہبود کا پرچار کرتے ہیں۔

  • Title : تشخص کا مسئلہ اقبال کی نظر میں
    Author(s) : ڈاکٹر نزیر احمد کھنڈا
    KeyWords : تشخص ۔تواتر۔شدت ۔رُوح القدس۔عجم۔عہد کہن۔سوزِدروں ۔عرفان۔تعبیر
    View Abstract
    اقبال کے یہاں اہم اور بنیادی مسئلہ تشخص کے بحران کا ہے اس مسئلے پر انھوں نے ایک مفکر اور شاعر دونوں حیثیو ں سے غوروفکر کیا ہے اور اتنے تواتر،شدت اور ارتکا ز کے ساتھ کہ یہ ان کی فکری،جذباتی اور نفسیاتی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آیا ہے ۔ یہ مسئلہ اقبال کی شخصی اور عنصری زندگی کے تعلق سے یقیناً اتنا ہمہ گیر اور پیچیدہ ہے۔کہ اس کےمحرکات اور اس کی تشکیلات کی تلاش وتحقیق ناگزیر ہوجاتی ہے ۔اقبال نے اپنے اردو مجموعے کلام ’’ضرب کلیم‘‘ میں شامل نظم ’’مدنیت اسلام‘‘ میں اسلامی تشخص کو روح القدس کے ذوق جمال کے ساتھ عجم کے حسن طبیعت اور عرب کے سوزِدروں سے تعبیر کیا ہے۔جس میں نہ عصررواں کی حیا سے بیزاری ہے اور نہ عہد کہن کے افسانہ وافسوں ہیں وہ تازہ بستیاں آباد کرنا چاہتے ہیں جب وہ اسلامی تشخیص کی بات کرتے ہیں تو ماضی کے عرفان کے معنی ان کے یہاں زندگی کے ایک اخلاقی مشن کے اور سماجی مساوات کے اس تصور کے ہوتے ہیں جس کا خواب اسلام نے دیکھا ہے۔

  • Title : اقبال اور فضیلت انسان
    Author(s) : ڈاکٹر افشانہ نذیر
    KeyWords : نشیب وفراز۔ دلکش انداز۔ گوناگوں۔مدوجزر۔عظیم شعور۔منظم ۔مرتب
    View Abstract
    انسان اور انسانیت کے مختلف انفرادی اور اجتماعی معاملات ومسائل کی طرف پوری توجہ علامہ کی مرکوز رہی ۔وہ انسانی زندگی کے سارے نشیب وفرازکا علم رکھتے تھے ۔ اسکا سارا مدوجزر ان کے پیش نظر رہا ہے ۔ انسانی زندگی کو جن حالات سے دوچار ہونا پڑا اس کا اقبال کو بڑا دکھ رہا۔ اقبال نے انسان کی عظمت وبلندی کی ترجمانی اپنے اردو اور فارسی کلام میں دلکش انداز میں کیا ہے۔ اس موضوع سے تعلق رکھنے والی گوناگوں جزئیات کبھی انفرادی طور پر اقبال کے اشعار کا موضوع بنی ہیں اور کبھی انہوں نے مرتب اور منظم نظموں کی صورت اختیار کی ہے ۔ اقبال کے کلام میں انسان کی عظمت اور برتری کا جو عظیم شعور ہے اُسے انکی شاعری ایک عظیم کارنامہ انجام دینے میں نہایت اہم ہے

  • Title : جدیدیت اور فکر اقبال۔۔۔ایک مطالعہ
    Author(s) : ڈاکٹر فیاض الدین طیب
    KeyWords : تہذیب وثقافت، جدیدیت ، ہم آہنگ، اجتہاد، ثمرات، جدیدیت، تناظر،مشاہدہ
    View Abstract
    اردو ادب کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء سے ہی شعریات اور جمالیات کو کئی تحریکوں نے غیرمحسوس طور پر متاثر کیا تھا ۔ جدیدیت کی شروعات مغرب سے ہوئی مغربی تہذیب وتقافت کے علاوہ زندگی کے بارے میں جو تصورات تھے کو بھی جدید فکر سے آشنا کیا گیا ہے معاشرتی علوم وفنون کے ماہرین جدیدیت کی تحقیق کے سلسلے میں اس فعل کو جدید سے تعبیر کیا ہے ۔جو ایک انسان کو بدلتے ہوئے حالات وواقعات کے ساتھ ہم آہنگ کردیتا ہے۔اقبال نے جدت یعنی ندرتِ فکر کی قدروقیمت اور اس کے ثمرات سے ہمیں آگاہی دلائی اس کائنات میں غوروفکر اور ہم آہنگ کرنے سے ایک انسان اس کائنات کا حکمران بن سکتا ہے اور اس کے پاکیزہ اور بلندخیالات سے دنیا میں ایک انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ بے شمار ایجادات اسی اجتہاد،تحقیق یا جدت فکر ہی کے ثمرات ہیں جدیدیت کے تناظر میں اقبال کی شاعری واقعی حرکت کے ساتھ ساتھ حرارت کو بھی مضبوط بناتی ہے اور جدید ذہن رکھنے والوں کے لیے جدیدیت میں اضانے کاکام کرتی نظر آتی ہے۔

  • Title : اقبال کی فارسی زبان کے نقوش
    Author(s) : ڈاکٹر محمد یعقوب راتھر
    KeyWords : مسند، اسرارورموز، رغبت، تصوف،تغیر،دقیق، کتب بینی ،سرمایہ،
    View Abstract
    برصغیر میں غالب کے بعد ایوان شاعری میں فارسی کی مسندخالی نہیں رہی بلکہ جلد ہی اقبال اس پر تشریف فرماہوئے اقبال نے اسی ادبی،تہذیبی اور ثقافتی روایت کے تحت ابتدائی عمر میں عربی کے ساتھ ساتھ فارسی زبان بھی اپنے استاد میر حسن سے حاصل کی۔ اس کے علاوہ فارسی کے حصول میں انہوں نے جی توڑ محنت کی۔انہیں فارسی شعروادب کا فطری ذوق تھا۔ ؁ ۱۹۰۸ ء کے بعد اقبال کا میلان فارسی کی طرف ہوگیا تھا ۔ اس دوران انہوں نے اردو میں بہت سی نظمیں بھی لکھیں مگر ان کی توجہ کا مرکز فارسی مثنوی اسرارورموز بن گئی۔ شیخ عبدالقادر نے اقبال کی فارسی گوئی کے بارے میں چندوجوہ کی طرف اشارہ کیا ہے۔فارسی میں شعر کہنے کی رغبت اقبال کی طبیعت میں کئی اسباب سے پیدا ہوگئی اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی کتاب حالاتِ تصوف کے متعلق لکھنے کے لیے جو کتب بینی کی اس کو بھی ضرور اس تغیر مذاق میں دخل ہوگا اس کے علاوہ جوں جوں ان کا مطالعہ علم فلسفہ کے متعلق گہرا ہوتا گیا اور دقت حالات کے اظہار کو جی چاہا تو انہوں نے دیکھا کہ فارسی کے مقابلہ میں اردو کا سرمایہ بہت کم ہے۔

  • Title : اکیسویں صدی کا امن عالم اور اقباؔل
    Author(s) : ڈاکٹر رُخسانہ رحیم
    KeyWords : استعمار۔ سامراجی ۔غلبہ۔شاطرانہ۔ثقافتی۔طبقاتی۔ محال
    View Abstract
    علامہ اقباؔل کے زمانے میں مغرب کی تمدنی اور استعماری یلغار کا بڑا مظہر اس کانو آبادیاتی نظام تھا۔ استعمار نے ایشیا افریقہ کی پیشتر اقوام کو اپنی ہوس کے پنجہ خونین میں جکڑ رکھا تھا۔ جن قوموں پر سامراجی براہ راست غلبہ نہ پاسکے انھیں بھی شاطرانہ سیاست عیاری ومکاری اور فریب کاری کے مختلف حیلوں بہانوں کے ذریعے اپنا ذہنی اور ثقافتی غلام بنا رکھا ہے اقبال تمام انسانوں کی آزادی ودوستی کے ساتھ ان کی مساوات پر بھی زور دیتے ہیں۔اس کے بغیر مساوات اور انسان دوستی کا تصور محال ہے۔وہ ان تمام کوششوں کو قابل نفرت قراردیتے ہیں جو طبقاتی تقسیم کا سبب نہیں وہ انسانوں کو جبرواستبداد سے نکال کر ان کی غلامی سے نجات دلانا چاہتے ہیں۔

  • Title : عصر حاضر میں تہذیبی تصادم اور فکراقبال
    Author(s) : ڈاکٹر محمد یوسف وانی
    KeyWords : گورو کفن۔ آہیں سسکیاں ۔بربریت۔ معاشی نا ہمواری۔ گلوبل ولیج۔اعتبار
    View Abstract
    موجودہ عالمی منظر نامے کو ذہن میں رکھکر گفتگو کی جائے تو دُنیا کے کمزور اور بے بس انسانوں کی چیخیں،بچوں اور خواتین کی بے گورو کفن لاشیں ۔آہیں اورسسکیاں شمار لے کر رو رہی مائیں،اجتماعی ظلم وبربریت کی بے شمار مثالیں نظر آ ئیں گی ۔یہ دراصل ایک نئے نظام عالم کے تصور کی تکمیل ہے۔ دنیا اس وقت تاریخ کے ایسے نازک موڈ سے گزر رہی ہے جہاں ہر چیز پر سے اعتباراُٹھ چکا ہے۔بیسویں صدی کے مفکرین کے نظریات پر سوالیہ نشان قائم ہوگئے ہیں کائنات کا مرکز ومحور اور حاصل ’انسان‘ اس قدر اُلجھ چکا ہے کہ اُسے دور دور تک روشنی کے آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔انتشار ’بدامنی‘ قتل و غارت گری سماجی نا برابری،معاشی نا ہمواری اور نا انصافی کے اس دور میں اب خیر اور شر کی تمیز بھی مٹ چکی ہے۔دُنیا گلوبل ولیج کے بجائے چھوٹی اسکرین پر تیر رہی ہے یہ سب مغرب کی تہذیبی جنگ یا جارحیت ہی ہے جو معاشی،سیاسی معاشرتی وغیرہ سطحوں پر عالمگیریت کے نام پر جاری ہے۔

  • Title : خودی کے مرحلہ نیابت الہیٰ پر ایک نظر
    Author(s) : ڈاکٹر معیالظفر
    KeyWords : ارتقائی۔ نیابت۔ نائب۔ خلیفہ۔ منصب۔ مزاحمتوں
    View Abstract
    اقبال نے فلسفہ خودی میں پیش کیا جو ۱۹۱۵ء میں لاہور سے شائع ہوئی ۔اقباؔل کے مطابق تربیت خودی کے تین مرحلے یا ارتغائی منزلیں ہیں۔ ۱)اطاعت ۲)ضبط نفس ۳) نیابت الہیٰ۔ اقبال کا دعوٰی ہے کہ نیابت زمین پر انسانی ارتقاء کی تیسری اور آخری منزل ہے نائب زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے نیابت الہیٰ کا منصب پر انسان جب فائز ہوجاتا ہے وہ تخلیق السانی کا مقصد خاص ہوتا ہے۔اور اس کے حصول کے لیے انسان روزِاول سے سرگرم عمل اور مزاحمتوں سے برسرِ پیکار ہے۔

  • Title : سیاست ! اقباؔل کی نظر میں
    Author(s) : ڈاکٹر پیرنصیر احمد
    KeyWords : جدوجہد۔ تنگ نظر ۔ تعصب۔ فرسودہ۔ آفاقی۔ آفاق
    View Abstract
    اقبال کی نظر میں سیاست کو قوم وملت سے وہی نسبت ومطابقت ہے جو جسم سے جان کو ہے ان کی ہاں سیاست آزادی ہے سیاست ان کے نزدیک حیات ملی کے شعورکا نام ہے اس لیے سیاسی بصیرت سے ہی اس نصیب العین کی جدوجہد کی جاسکتی ہے جس سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے ظاہر ہے کہ اقبال جس دین کو سیاست کا حصہ بنانا چاہتے ہیں وہ مُلّاکا دین نہیں ہے بلکہ اقبال کا تصور دین وسیع معنی رکھتا ہے اقبال تنگ نظر اور تعصب دل ودماگ کے بجائے جدید ذہن کے مالک تھے۔وہ فرسودہ نظاموں کے بالکل خلاف تھے وہ مشرق ومغرب کی قید سے بے نیاز ایک ایسے آفاقی انسان تھے جس میں خودبخود آفاق گم ہوجاتے ہیں بر صغیر کی سیاست کے متعلق بہت سے لوگ اس کردار سے پوری طرح واقف نہیں ہیں جو اقبال نے ادا کیا ہے۔اقبال نے اگر چہ سیاسیاست کے موضوع پر کوئی مستقل کتاب ضبط تحریر میں نہیں لائی لیکن اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ ان کی اکثر تصانیف تحریریں،بیانات اور سب سے بڑھکر ان کا شاعرانہ کلام علم سیاسیات کے بلند حقائق سے لبریز ہے۔

  • Title : حکیم ناسر خسرؔو اور علامہ اقباؔل کی شاعری میں ہم خیالی
    Author(s) : ڈاکٹر شاہ نواز شاہ
    KeyWords : ادبی آثار ۔خودشناسی۔موضوع۔ اعتراف۔ فلسفیوں
    View Abstract
    حکیم ناصرخسرو اُن اولین فلسفیوں،مفکروں اور شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جن کا تعلق پانچویں صدی عیسوی سے تھا۔ اس عظیم شخصیت نے ’’خودشناسی‘‘کے اہم موضوع کو اپنے ادبی آثار میں مفصل طور پر بیان کیا ہے۔ اور آپ قرآن کریم کے حافظ بھی تھےاس عظیم شاعراور مفکر کے نوسوسال بعد تھے ۔اور علامہ اقباؔل کے نام سے مشہور اور معروف ہیں علامہ اقباؔل فارسی زبان کے اس بلند پایہ شاعر یعنی حکیم ناصر خسرؔو کی زندگی اور ان کے آثار سے کافی متاثر تھے اس بات کا اعتراف خود علامہ اقباؔل کرتے ہیں کہ اس نے حکیم ناصر خسرؔو کے ساتھ روحانی میں ملاقات کی ہے اور اس ملاقات کے بارے میں خود ’’جاوید نامہ‘‘ میں کچھ اس طرح ذکر کیا ہے۔’’نمودارمی شود روح علوی وغزلی مستانہ سراپیدہ غائب می شود‘‘حکیم ناصر خسرؔو کی طرح علامہ اقبال نے بھی خودی کی تکمیل کے لیے چند مراحل تجویز کئے ہیں۔

  • Title : اتحاد عالمِ اسلام اور فکر علامہ اقبال
    Author(s) : ڈاکٹر شاداب ارشد
    KeyWords : رنگ ونسل۔ نشاہ الثانیتہ۔ ہدایت ۔ عربی وعجمی۔نظریات
    View Abstract
    علامہ اقباؔل دنیا کے مسلمانوں کو اسلام کے بنیادی اصولوں پر اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے انہیں یاد دہانی کراتے ہیں کہ کئی سو برس پیشتر نبی پاک ﷺ نے عربی وعجمی کو باہم برابر قرار دیا تھا اور رنگ ونسل اور وطن کے امتیازات کو ختم کرتے ہوئے عظمت کا معیار تقویٰ کو قرار دیا تھا۔اقبال نے جہاں اجتمائی طور پر ملت اسلامیہ کے مسائل کے حل کےبارے میں اپنے نظریات کو اپنے کلام نثرونظم کے ذریعے کیا ہے۔وہاں انفرادی طور پر مسائل کے لئے کتاب ہدایت قرآن پاک اور دین ہدایت یعنی اسلام سے رجوع کریں۔ملت اسلامیہ کو نشاہ الثانیتہ قائم کرنے کے لیے اتحاد کا پیغام دیا ہے چاہیے مسلمان جغرافیائی اور نسل ولسان کے اعتبار سے دنیا کے کسی بھی حصے سے تعلق رکھتے ہوں ان کی اصل صرف اور سرف اللہ ہے۔

  • Title : اقبال کے تصور عشق وعمل کی ایک نئی قرأت
    Author(s) : ڈاکٹر عرفان عالم
    KeyWords : بلندخیالی۔پاکیزگی۔اعلیٰ صفات ۔تعبیر۔پوشیدہ
    View Abstract
    اقبال کی شاعری ہو یا نثر!عشق و عقل کے تعاقب میں ہے۔اقبال کا تصور عشق خیالی دنیا سے نکال کر حقیقی دنیا میں عشق کے جام نوش کرنا یوں سکھاتی ہے کہ عشق کا موضوع انسان اور انسانی زندگی کے جیتے جاگتے مسائل معرفت کے انداز اختیار کر جاتی ہے اور اس کی حقیقت سے ایک ایسا الگ ہی تعلق پیدا ہوجاتا ہے کہ عشقیہ شاعری پاکیزگی اعلیٰ صفات وجذبات اور بلند خیالی کا درس دیتی نظر آتی ہے اقبال کی شاعری عشق وعمل کا ایک ایسا امتزاج ہے کہ خیالات کی وسعت خیالی دنیا سے نکل کر حقیقی دنیا کے خواب کی تعبیر کی تلاش میں جانکلتی ہے۔اقبال کے فلسفے کے مطابق بہتر عمل وہی ہے جسمیں حقیقیی عشق چھپا ہوا ہو۔کیونکہ حقیقی عشق ہی بہتر عمل کرنے کے لیے اُ کساتا ہے۔ اور اقبال کے نزدیک جس نے بھی بہتر عمل کردکھایا اس کے اس عمل میں عشق پوشیدہ تھا ۔

  • Title : سرسید احمد خان اور علامہ اقبال کے اجتہادی افکارکی عصری معنویت
    Author(s) : ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی
    KeyWords : متمنی۔ منہاج۔نابغاؤں۔اجتہادی۔ تشکیل۔ حکمت وتدبر۔
    View Abstract
    سرسید احمد ؔخان اور علامہ اقباؔل دونوں شخصیات ایک جانب اسلام کی عظیم تعلیمات روایات سے بہرہور تھے۔اور دوسری جانب عہد حاضر کی سائنسی ترقی اور تجرباتی منہاج کے رمزشناس۔اس اعتبار سے انہیں بجا طور پر ہم عالم جدید کی ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق برصغیر میں نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ بلا تفریق مذہب وملل تمام لوگوں کے لیے مسیحا قرار دے سکتے ہیں۔ان دونوں نابغاؤں کے پیش کردہ بیش بہااجتہادی نظریات سے فائدہ اُٹھا کر اب بھی برصغیرعلمی،اقتصادی،معاشرتی اور روحانی فیوض وبرکات سے مالامال ہوسکتا ہے۔سرسید احمدخان جدید سائنس کا مطالعہ مسلمانوں کے لیے ازحد ضروری خیال کرتے تھے اس لئے ان کے نزدیک اسلامی نظریات کی تشریح روایتی انداز میں کرنے کی بجائے نئے اور بدلے ہوئے زاویے نگاہ سے کرنا لازمی ہے علامہ اقبال بھی اُنہی کی طرح فکر اسلامی کی تشکیل جدید کے متمنی دکھائی دیتے ہیں آپ عہد حاضر کے سائنسی افکار کو اسلامی حکمت کے کچھ نمایاں مسائل کو افکار کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔

  • Title : اقبال شناس امین حزیؔن۔چند تاثرات
    Author(s) : ڈاکٹر پریمی رومانی
    KeyWords : بلندی۔ فکرونظر۔ گہری معنویت۔ عرفانِ ذات۔ ضبط نفس۔ خداداد
    View Abstract
    امین حزین ایک باشعور اور پختہ مشق شاعر تھے انہوں نے اپنی خداداد صلاحیت سے اردو شاعری میں نمایاں مقام پیدا کیا۔ ان کی شاعری تہہ دار اور گہری معنویت کی حامل ہے خیال کی بلندی اور موضوع کی وسعت کے باعث ان کی نظمیں ان کی غزلوں پر بھاری ہیں۔ان کی شاعری میں فکرونظر کی بلندی کے ساتھ ساتھ دل کی پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے ۔امین حزین علامہ ہی کی طرح اثبات خودی کے شاعر ہیں۔اور وہ بھی عرفانِ ذات اور ضبط نفس کو انسانی بہبود کا لازمہ قرار دیتے ہیں۔اسی طرح حیات کے لیے بلند نصب العین لازم ہے اور اس کو پانے کے لیے مسلسل جدّوجہد ضروری ہے۔اور امین حزین اس کا اظہار اقبال کے ہی لہجےمیں یوں کرتے ہیں۔مسلسل جدوجہد،تلاشوجستجو آرزؤں کی تکمیل اور امنگوں کی تلاش ضروری قرار دیتے ہیں۔اگر یہ چیزیں نہیں ہیں تو زندگی بے معنی ہے۔

  • Title : اقبال کی تعلیمی فکر اور معاصرِ چیلینجز
    Author(s) : ڈاکٹر طارقِ مسعودی
    KeyWords : نوعیت۔ جمودوتعطل۔ عقل وجدان۔ تقاضوں۔ خواہشات۔ منفرد لب ولہجہ
    View Abstract
    مسائل انسانی کی نوعیت اور ان کی عقدہ کشائی کے لیے اقبال جہاں عالم انسانیت سے مخاطب ہیں وہاں ان کا اصل concern امت مسلمہ رہا ہے دورِ جدید اور خاص کر معاصر عہد میں جو مسائل اور challenges اُبھر کر سامنے آئے ہیں ان کی اصل وجہ ایک طرف عقل وجدان کے درمیان بے حد دوری اور مسلسل معرکہ روح وبدن ہے تو دوسری جانب اُمت میں شدت جمودوتعطل ہے۔ اس تناظر میں اقبال اپنے منفرد لب ولہجہ میں تصور تعلیم کی تعبیر وتشریح پیش کرتے ہیں۔جب اقبال اپنے تعلیم اور اس کی مضمرات کی بات کرتے ہیں تو ایکapproach Active & inclusive کے ساتھ وہ عصری مسائل اور Challenges اور پھر دورِ حاضر کے تقاضوں ،ضروریت ، خواہشات اور تحفظات کو پیش نظر رکھتے ہیں۔اقبال کے تعلیمی افکار کے مطالعے سے یہ بات کسی ابہام کے بغیر سامنے آجاتی کی ایک موافق نظام تعلیم وتربیت میں آپ کے تصور خودی کے انسان کامل perfect man کی تعمیر وتشکیل ایک کلیدی Aim of Education بن جاتا ہے۔

  • Title : تعلیمی نظام ۔۔۔۔۔معیارومنزان میں ادباروزوال___ماہرین اور منتظمیں کے کیے لمحہ فکریہ
    Author(s) : پروفیسربشیراحمدنحوی
    KeyWords : انسان سازی۔ دیانت داری۔ سراب۔ منتظم۔ نگرانی۔ سفارشات۔ تدریسی نظام
    View Abstract
    تعلیم ہمارے پورے نظام کا ایک قابل قدر جُز ہے اور اُستاد اس نظام کا سب سے اہم رکن ہے لیکن دیانت داری سے اگر موجودہ حالات میں اس نظام تعلیم کا محاسبہ کیا جائے تو اس کا تقدس جو انسان سازی کے اصولوں پر قائم ہو چکا تھا اور جس کی ایک انتہائی حیران کن تاریخ تھی ۔ہمارے یہاں ایک دھندہ،ایک دھوکہ،ایک فراڈ ایک فریب اور ایک سراب سےکم نہیں۔ ہمارے انتظامیہ میں اعلیٰ صلاحتیوں کے منتظم موجود ہیں اور یہ ریاست کی تعلیم اور تہذیب سے وابستہ ایک بڑے طبقے کی رائے ہے کہ شعبہ تعلیم ایسے لوگوں کی نگرانی میں رہنا چاہیے۔جو قومی تعلیمی،کمیشنوں،کمیٹیوں،تربیتی اداروں اور امتحانی طور طریقوں،رپورٹوں اور سفارشات سے بخوبی آگاہ ہوں،تب جاکے تعلیمی پالیسی اور تدریسی نظام میں بہتری پیدا ہوسکتی ہے ۔

  • Title : فکر اقبال پر قرآنی تعلیمات کے اثراتہ
    Author(s) : پروفیسرحمید نسیم رفیع آبادی
    KeyWords : شخصیت۔ غوروفکر۔اہل حق۔ تکمیل۔ خیبرشکن
    View Abstract
    اقبال کی زندگی میں یہ عظیم کتاب مقدس جس قدر اثر انداز ہوئی اتناوہ کسی شخصیت سے متاثر ہوئے نہ ہی کسی کتاب نے ان پر ایسا اثر ڈالا ہے۔تلاوت قرآن کےساتھ ساتھ قرآن مجید میں غوروفکر اور اور تدبربھی کرتے جاتے تھے ۔علامہ اقبالؔ نے جب افغانستان جانے کا موقع پایا تو انہوں نے قرآن مجید کا ایک نُسخہ نادر شاہ کو پیش کرتے ہوئے فرمایا۔’’اہل حق کی یہی دولت ہے اسی کے باطن میں حیات مطلق کے چشمے بہتے ہیں۔یہ ہرابتداء کی انتہا اور ہر آغاز کی تکمیل ہے اسی کی بدولت مومن خیبرشکن بنتا ہے۔میرے کلام میں تاثیر اور میرے دل کا سوزوگداز سب اسی کا فیض ہے۔